بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، امریکی سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر اور وزیر دفاع ، لیون پنیٹا (Leon Panetta) نے ایک انٹرویو میں، 2003ء میں عراق پرامریکی حملے کو "ایک خوفناک غلطی" قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حملے نے نہ صرف علاقے میں عدم استحکام اور شدت پسندی اور سلامتی کے خلا کو جنم دیا بلکہ اس کے منفی اثرات آج بھی مشرق وسطیٰ اور امریکہ کے عالمی مفادات کو متاثر کر رہے ہیں۔
پینٹا نے واضح الفاظ میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ (یا کسی بھی امریکی صدر) کو خطے میں ـ خاص کر ایران کے خلاف ـ کسی بھی نئی جنگ میں الجھنے سے گریز کرنا چاہئے۔
پینٹا نے کہا: جس طرح کہ عراق جنگ کو مختصر اور فاتحانہ سمجھا گیا تھا لیکن یہ سالوں پر محیط پیچیدہ تنازعہ بن گیا، اسی طرح ایران کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی ایک طویل اور وسیع علاقائی بحران کا باعث بنے گی۔
انھوں نے زور دے کر کہا: ایران کے ساتھ کسی بھی تصادم کے نتیجے میں امریکہ کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔
پینٹا کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب خطے میں کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے اور امریکہ بزعم خود ایران کے خلاف جارحانہ اقدامات پر غور کر رہا ہے۔
ایران ایک آسان ہدف نہیں، ایران پر ممکنہ حملہ بحرانوں کے طویل سلسلے کا آغاز ہوگا
پینٹا نے اپنے تجزیے میں زور دے کر کہا کہ ایران پر کوئی بھی حملہ، ـ چاہے وہ محدود فضائی حملہ ہی کیوں نہ ہو، ـ امریکہ کو لازماً ایک علاقائی جنگ میں دھکیل دے گا۔
پینٹا کے اس اس واضح اور صریح انتباہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایران کے دفاعی ڈھانچے اور انتقامی صلاحیتوں کی گہری سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ ایران خطے میں اپنے وسیع اثر و رسوخ اور جغرافیائی سرحدوں سے باہر بھی شدید ردعمل ظاہر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سنہ 2003ع کی پابندیوں اور تنہائی کا شکار عراق کے برعکس، آج کا ایران نہ صرف فوجی طور پر مضبوط ہے بلکہ سفارت کاری، علاقائی سلامتی اور بالواسطہ اثر و رسوخ کے نیٹ ورک کے لحاظ سے بھی ایک مستحکم طاقت ہے۔ لہٰذا یہ خیال کرنا کہ ایک محدود حملہ امریکہ کے اہداف کو بھاری قیمت چکائے بغیر حاصل کر سکتا ہے، ایک خطرناک وہم ہے جو عراق جنگ کے اندازوں کی تکرار ہوگی۔
ٹرمپ کو تنبیہ اور عالمی سلامتی کا مستقبل
لیون پینٹا نے براہِ راست امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے اُنہیں "سبق سیکھنے" کی تلقین کی اور کہا یہ بیان محض کسی ایک فرد کے لئے نہیں بلکہ امریکی فیصلہ سازی کے اس ڈھانچے کے لئے ایک انتباہ ہے جو کبھی کبھار اندرونی سیاسی ماحول، فوجی-صنعتی لابیوں اور میڈیا کے دباؤ سے متاثر ہو کر مہنگے اقدامات کر بیٹھتا ہے۔
اس وقت جب مشرق وسطیٰ سلامتی اور سیاسی نظام کو نئے سرے سے متعین کرنے کے دہانے پر کھڑا ہے، کوئی بھی فوجی اقدام اس غیرمستحکم توازن کو مکمل انتشار میں بدل سکتا ہے۔ اگر امریکہ پینٹا جیسے حکمت عملی کے دانشوروں کی بات نہیں سنے گا تو شاید تاریخ عراق کی غلطی کو دہرائے گی ۔۔۔- لیکن اس بار انتہائی خطرناک پیمانے پر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ